کالم

ججز کا خط اور اہم انٹیلی جنس ایجنسی کو متنازعہ بنانے کی گھناؤنی کوششیں

تحریر: عبدالباسط علوی

ایک طرف تو ہمارے نظام کے اپنے اندر خامیاں ہیں اور بجائے پہلے اسکو سہی کرنے کے الزام اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں چھ ججوں نے ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے 2018 میں لگائے گئے الزامات کی انکوائری کا مطالبہ کیا۔ افسوسناک ناک امر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے پاکستان کی سب سے بڑی اور قابل قدر انٹیلی جنس ایجنسی پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ایک جج کے مطابق ان کے خط میں مختلف واقعات کی تفصیل دی گئی ہے جہاں ججوں کو مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کے دباؤ، ہراساں کیے جانے اور یہاں تک کہ ان کے رشتہ داروں پر تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ایک سرکاری گھر کے بیڈروم اور ڈرائنگ روم میں ویڈیو ریکارڈنگ ڈیوائسز لگانے کے بارے میں بھی ذکر کیا۔ تشویشناک امر ہے کہ اگر ان معزز ججز کے مطابق یہ الزامات درست ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان خدشات کا پہلے کیوں اظہار نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال کے دوران ان مسائل کے سامنے لانے کا مقصد کسی مخصوص گروہ کی حمایت کرنا ہے یا نہیں اس پر شکوک و شبہات موجود ہیں۔

اس خط نے اہم تنازعہ کو جنم دیا ہے۔ ایک مخصوص سیاسی دھڑا اور ریاست مخالف گروہ ان ججوں کو ہیروز کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور ججوں کے خط کے بعد ایک سیاسی جماعت کے بانی کے خلاف سزاؤں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ریاست مخالف دھڑے نے ہماری ممتاز اور اہم انٹیلی جنس ایجنسی کے خلاف ایک مہم شروع کی ہوئی ہے اور ہمارے اداروں کے خلاف رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کے سیکورٹی اپریٹس کے پیچیدہ فریم ورک کے اندر انٹیلی جنس ایجنسیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ریاست کی حفاظت اور استحکام کے لیے اہم معلومات کو مسلسل اکٹھا کرتی، تجزیہ کرتی اور ملک کی بہتری کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں عملی ہونے سے پہلے خطرات کا اندازہ لگانے اور ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ قومی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کو ترجیح دیتے ہوئے بہت سے اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پاکستان کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی کے طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی سلامتی سے متعلق معلومات کو اکٹھا کرنے، پروسیسنگ کرنے اور تجزیہ کرنے کا کام آئی ایس آئی کے ذمے ہے۔ 1948 میں قائم کیا گیا پاک فوج کا یہ اہم بازو اہم انٹیلی جنس حاصل کرکے قومی سلامتی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت، کارکردگی اور ساختی نقطہ نظر کے لیے مشہور، آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔پاکستانی فوج کے ایک لازمی جزو کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے آئی ایس آئی احتیاط سے کام کرتی ہے اور قومی دفاعی حکمت عملی پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔

ریاست کی آنکھ اور کان کے طور پر کام کرتے ہوئے آئی ایس آئی پوری تندہی سے پاکستان کے قومی مفادات اور اس کی عوام کا تحفظ کرتی ہے۔ اگرچہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایجنٹوں کی صحیح تعداد ظاہر نہیں کی جاتی، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق آئی ایس آئی کے پاس دس ہزار ایجنٹوں سے زیادہ افرادی قوت ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے آئی ایس آئی پاکستان کے سیکورٹی فریم ورک کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی نے افغان سوویت جنگ کے دوران بہت اہم کردار ادا کیا اور سوویت مداخلت کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے افغان فورسز کو تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔ یہ تاریخی کامیابی آئی ایس آئی کے اسٹریٹجک وژن اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے پختہ عزم کی نشاندہی کرتی ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ مرحوم حمید گل نے مشہور تبصرہ کیا تھا کہ ’’جب دنیا کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی تو ایک اور جملہ یہ ہوگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دی۔”

حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی نے پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کی سرحدوں کے اندر دہشت گردی، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے نمٹنے کے لیے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے کامیاب آپریشنز کا آغاز کیا۔ انٹیلی جنس کی زیر قیادت یہ کوششیں دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کو ناکام بنانے میں اہم رہی ہیں۔

ریاست مخالف عناصر اور را اور موساد جیسی غیر ملکی ایجنسیوں کی تنقید کا سامنا کرنے کے باوجود آئی ایس آئی پیشہ ورانہ مہارت اور تندہی سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ عالمی جاسوسی نیٹ ورکس اور دشمنی کی سازشوں کے خلاف پاکستان کے قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ میں ثابت قدم ہے۔قومی سلامتی کے مفادات کو برقرار رکھنا آئی ایس آئی کا اولین مقصد ہے، جو پاکستان کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے اس کے ناگزیر کردار پر زور دیتا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملوں کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اہم کردار ادا کیا جس کے دوران آئی ایس آئی نے ریاست، اس کے اداروں اور معاشرے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے مخالفین کی طرف سے قائم کیے گئے متعدد دہشت گرد نیٹ ورکس کو کامیابی کے ساتھ بے نقاب اور ختم کیا۔ ان نیٹ ورکس کو بھارت اور افغانستان جیسے پڑوسی ممالک سے حمایت اور فنڈنگ ​​حاصل تھی۔

اس وقت پاکستان میں نسبتاً مستحکم اور پرامن ماحول ہے۔ لوگ بلا روک ٹوک نقل و حرکت کرنے میں آذاد ہیں اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو بہترین ماحول میسر ہے۔ یہ پیش رفت آئی ایس آئی کی انٹیلی جنس سپورٹ اور پاک فوج کی جانب سے امن برقرار رکھنے کی وجہ سے ہے۔ اندرونی طور پر آئی ایس آئی کے مثبت کردار کو نظر انداز نہیں کیا سکتا۔ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی کے اندر ریاست مخالف اور بدعنوان عناصر کے خلاف چوکسی بہت ضروری ہے جو کہ ایک قومی ضرورت کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی مناسبت سے سابقہ حکومت نے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو بیوروکریٹس کی شمولیت، تقرری اور ترقیوں کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری سونپی تھی اور یہ بیوروکریسی کے اندر دہشت گردی اور بدعنوانی کے خاتمے کے جانب ایک اہم قدم ہے۔

قومی سلامتی کے پیچیدہ تانے بانے کے اندر انٹیلی جنس ایجنسیاں خاموش سپاہیوں کے طور پر کام کرتی ہیں، جنہیں ملکی اور غیر ملکی دونوں طرح کے کثیر جہتی خطرات کے خلاف ملکی مفادات کی حفاظت کا کام سونپا جاتا ہے۔ تاہم، جب یہ ایجنسیاں تنازعات میں پھنسا دی جاتی جاتی ہیں، تو اس کے اثرات انٹیلی جنس کمیونٹی کے دائرے سے کہیں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کسی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو متنازعہ بنانے کے نتائج کا تجزیہ گورننس، سیکورٹی اور عوامی اعتماد کو درپیش پیچیدگیوں اور رکاوٹوں پر روشنی ڈالتا ہے۔

قارئین، حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو باریک بینی سے اور احتیاط سے حل کریں۔ خاص طور پر قومی سلامتی کے معاملات سے جڑے ہونے کے پیش نظر، ہمارے محافظوں کو متنازعہ بنانے سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *