تازہ ترینکالم

زبان کی اہمیت اور لفظوں کے اثرات

کہیں زبان کی کمان سے نکلے لفظ تیرتوکہیں خوش کلامی کامرہم بنتے ہیں
تحریر: ظفر اقبال ظفر لاہور پاکستان
انسانی بچہ اپنی پیدائش سے دوسال تک بولنا شروع کر دیتا ہے مگر کون سا لفظ کس وقت بولنا ہے یہ سمجھنے کے لیے ساری زندگی لگ جاتی ہے اسی لیے بولنے کے وقت چپ رہنا اور چپ رہنے.کے وقت بولنا زبان کے دو عیب بیان کیے گئے ہیں۔کون سی بات کب کہاں اور کیسے کہی جاتی ہے اگر یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے۔ہر انسان کی شخصیت اُس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے جب زبان کے لفظوں کا پہرہ دینے والے لوگ ختم ہوئے تو بیان حلفی اسٹام پیپرجیسے کاغذ وں کے ٹکڑے آگئے۔ زبان دل و دماغ کی ترجمان ہوتی ہے اور دل و دماغ کس کے ترجمان ہیں یہ انتخاب ہی انسان کو معاشرے میں منفرد حیثیت کا حامل بناتا ہے۔عظیم زہن اپنی سوچ اور سلیقہ گفتگو کی وجہ سے لوگوں کے زہنوں اور زبانوں میں موجود رہتے ہیں۔جہاں زبان کا اچھا استعمال ان گنت محبتیں کمانے میں آگے ہے وہاں برا استعمال بھی اپنی نفرتوں میں پیچھے نہیں رہا۔زبان کے زخم اپنے نشان مٹنے نہیں دیتے اس لیے اچھی گفتگو پہ عبور نہ ہونا کوئی گناہ نہیں ہے مگر بری گفتگو سے کسی کے دل و دماغ کو زخمی کر دینا زمین کے سارے حیوانوں کو پیچھے چھوڑ دینا ہے۔ تکلیف دہ باتوں کے وار کرتی زبان کے سامنے خاموشی کی دیوار بنا لینا اچھے خون اور تربیت کا پتا دیتا ہے۔ اسی لیے خاموشی کوآوازوں کا مرشد کہا گیا ہے جو جہالت کے بھی عیب چھپا دیتی ہے۔برے بول کا کوئی رتبہ نہیں جبکہ برداشت والے ہی مقام پاتے ہیں۔ محبوب انسان وہی ہے جس کی زبان سے گفتگو کا وہ ذائقہ نکلے جو سننے والے کانوں کی بھوک بڑھا کر زخمی زہن ودل پر بنے بدکلامی کے پھوڑے کو شفا بخش مرہم ملنے کے احساس میں مبتلا کر دے۔لفظوں میں تاثیر لانے کے لیے ناقص گفتگو سے کوسوں دور رہنا پڑتا ہے۔مجھ سے ہو مگر میرے لیے کچھ نہ ہو یہ عمل کم ظرفوں کے حصے میں نہیں آتا۔خوش کلامی کا ہنر بڑی قربانی سے آتا ہے جہالت کی گرم ریت پر شعور کی تلاش میں عقل کو ننگے پاؤں چلنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بنجر دل دماغوں کو سرسبز کرنے والے چشمے زبان سے پھوٹتے ہیں۔اپنے زخموں پر خوش نما رنگوں کے پھاہوں کے سینکڑوں پرت سجا نے پڑتے ہیں تب کہیں گفتگو کے سلیقے پر رنگ برنگے جھالر لگانے کا سلیقہ ہاتھ آتا ہے۔جس کا بولنا اچھا نہ ہو اُس کی خاموشی خوبصورت ضرورہوتی ہے۔عظیم انسان بنانے والے والدین کے گھروں میں بچوں کے جسموں سے زیادہ اُن کے زہنوں کو پالنے پوسنے پر دھیان دیاجاتا ہے۔پاکیزہ زبانوں کی گفتگو بھی عبادت میں شمار ہوتی ہے اور ان کے ہاں گستاخ قہقوں اور بے معنی باتوں کے جواب میں زبان نہیں کھولی جاتی۔جہاں زبان کے استعمال کے لیے زہن کی بڑی محتاط ترتیب کرنی پڑی ہے وہاں زبان کا اپنا وجود بھی اپنے تعارف کے لیے بڑے معتبر اشارے دیتا ہے گوشت کی ایک کونپل جس کی نا آنکھیں ہیں نا دماغ ہے مگر یہ منہ کے اندھیروں میں غذا کو دانتوں کے نیچے لاتی ہے جس طرح زبان میں ذائقہ بتانے کی حس ہے اسی طرح زبان سے ادا ہونے والے لفظ بھی سننے والے کے دل و دماغ میں اپنے ذائقے کا اثر چھوڑتے ہیں اسی بنیاد پر لوگ کہتے ہیں کہ آپ سے گفتگو سے بہت مزہ آتا ہے کیونکہ ہر سماعت میں لفظوں کا ذائقہ چکھنے کی اصلاحیت ہوتی ہے جو میٹھی گفتگو سے محبت اور کڑوی گفتگو سے نفرت کا نتیجہ دیتی ہے۔ایک محب وطن جاسوس دشمن ملک میں پکڑا جائے تو وہ درد کے زریعے اس کی زبان کی گرہ کھولنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنی جان تو دے دیتا ہے مگر زبان نہیں کھولتا کیونکہ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا بولنا اس کے وطن کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔
اس تناظر میں غور کیجئے کہ خدا نے عالم ارواح سے ہماری روح کو دنیا میں جسم کا لباس پہنا کر جو اتارا ہے یہ خدائی مقصدکی وہ عکاسی ہے جس میں انسان نے خدا اور خدا کے بندوں کی وہ ترجمانی کرنی ہے جس میں رضا وخوشی کا نتیجہ نکلے بس اسی میں حقوق اللہ اور حقوق العباد پوشیدہ ہیں اگر خدا نے انسان کا دل اپنے بسیرے کے لیے بنایا ہے تو انسان کی زبان دوسرے انسانوں میں بسنے کے لیے بنائی ہے۔وہ دل خدا کا گھر نہیں ہو سکتاجس میں نفرت حسد کینہ تکبرجیسے زہر بنتے ہوں اور خدا اُس زبان سے اپنا نام سننا بھی پسند نہیں کرتا جس سے دوسروں کو کسی قسم کا نقصان پہنچتا ہو۔یہ حدیث شہادت ہے کہ مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مومن محفوظ رہے۔لفظ لوگوں کے لیے اور خاموشیاں خدا کے لیے نکھار لیجئے۔زبان کوفقط گوشت کا ٹکڑا سمجھنے والے اس سے ادا ہونے والے لفظو ں کی زمہ داری سے غافل رہتے ہیں جبکہ منہ میں رکھے گوشت کے ٹکڑے کو زبان سمجھنے والے اپنے کہے ہوئے لفظوں کا پہرہ دیتے ہیں۔اگرخدا لفظوں کو یہ طاقت و اختیار دے دے کہ وہ اپنی حرمت و پاسداری کی خلاف وردی کرنے والی زبانوں کو گرفت میں لے لیں تو وہی زبانیں بولیں گئی جو بولنے کا حقیقی حق ادا کرتی ہوں گی اور باقی زبانیں قید خاموشی میں گونگی زندگی جینے پر مجبور ہو جائیں۔اگر زبان سے زخم دئیے ہیں اور پھر بھی بول رہے ہیں تو سمجھ جائیے کہ خدا زبان کے وار کو زبان کے ہی مرہم سے بھرنے کی مہلت دے رہا ہے کبھی کبھی تو میں خدا کا اس اعتبار سے بھی شکر گزار ہوتا ہوں کہ اُس نے مجھ جیسے جاہلوں پر کتنا بے پرواہ کرم کر رکھا ہے کہ غیر معیاری گفتگو جھوٹ غیبت سخت الفاظی بدکلامی جیسے برے استعمال کے باوجود زبان بندی نہیں کرتا ورنہ میرا مجھ میں ہے کیا جو خدا کی رضا کے بغیر بھی میرے ساتھ کھڑا رہے پھر بھی میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ روزا ٓخرت اگر خدا نے میرے خدائی اور انسانی ناراضگی والے سارے لفظوں کو زبان کی سزا بنا دیا تو میری تو اپنی بڑی زبان نہیں ہے جتنے اس پرآنے کے لیے چھالے قطار یں بنا لیں گے۔اگر ہم ایک دففہ خدا کا نام لیں تو اس کا اجر ہمارے حق میں رکھ دیا جاتا ہے تو کیاکسی کے لیے نکلے تکلیف دہ کلمات ہماری تکلیف بن کر وقت مقرر میں انتظار نہیں کریں گے۔لفظ سنائی دیتے ہیں مگر اس کے اثر دیکھائی دیتے ہیں آنکھوں کے پردے ہٹنے کی دیر ہے۔محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی مگر ہر زبان محبت کے لیے ہی ہوتی ہے۔اگر آپ سے گفتگو کرنے والے دل و دماغ لطف سے لبریز ہو جاتے ہیں تو گیلی و پھیکی زبان کے گھر سے میٹھے لب و لہجے کے پیالے میں شفا بخش لفظوں کے لنگر تقسیم ہونے پر خدا کے حضور سجدہ شکر ادا کیجئے۔کتنے ہی لوگ ایسی زبان رکھتے ہیں جو کسی سے اپنامسلہ کہتے ہیں تو ان کی ضرورت کا برتن خالی پلٹ آتا ہے اور کچھ ایسی زبانیں بھی ہیں جو دوسروں کے لیے دولت نہیں خون کا عطیہ مانگتے ہیں اور بیگ کم پڑھ جاتے ہیں۔ زبان تو وہ ہے جس کے لفظ آسمانی کیفیت کی تاثیر سے لبریز ہوتے ہیں۔اگر میں اس تحریر کے لفظ لفظ سے تاثیر زدہ زبان کے حصول واسطے مشورہ مانگوں تو مجھے سب سے پہلے ناقص مفہوم کے الفاظ نا بولنے کا تاحیات روزہ رکھواکر لفظوں کے چناؤ پر لگایا جائے گا۔ جھوٹ غیبت بدکلامی الزام تراشی سمیت جتنے بھی زبان کے عیب ہیں ان سے اپنی زبان پاک کر لیجئے نہ صرف دعائیں قبول ہوں گی بلکہ آپ کا بولنا لوگ دل کے کانوں سے سنیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ خدا سے گفتگو کریں گے تو جواب ملا کرئے گا مگرجواب سننے کے لیے کانوں پر بھی زبان جیسی محنت کرنا ہوگی۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *